بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

بیوہ، پانچ بیٹوں اور چھ بیٹیوں کے درمیان تقسیمِ میراث

سوال

کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے والد صاحب چند دن پہلے انتقال کر گئے ہیں ،انہوں نے ورثاء میں پانچ بیٹے،چھ بیٹیاں اور ایک بیوہ چھوڑی ہے ۔ شریعت کی روشنی میں ہر وارث کا کتنا حصہ بنتا ہے اس بارے میں وضاحت فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں حقوقِ متقدمہ علی المیراث(تجہیز و تکفین ،قرض اور جائز وصیت) کی ادائیگی کے بعد بچ جانے والے مال کے کل ایک سو اٹھائیس برابر حصے کیے جائیں ، جن میں سے سولہ (16) حصے مرحوم کی بیوہ کو دیے جائیں اور باقی بچ جانے والے حصص میں سے ہر بیٹے کوچودہ (14) اور ہر بیٹی کو سات (7)حصے دیے جائیں، یا یہ طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے کل ترکہ کے آٹھ (8)حصے کر کے ایک(1) حصہ بیوہ کو دے کر بقیہ بچ جانے والے مال کے سولہ (16)حصے کر کے ہر بیٹے کو دو(2) حصے اور ہر بیٹی کو ایک(1) حصہ دیا جائے ۔

128 = 8×16

بیٹیاں6 بیٹے 5 بیوہ
عصبہ ثمن
16 x 1 16 x 1
112 16

        حصص کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے

بیوہ :            16 حصے

فی بیٹا:           14حصے

                فی بیٹی :          7حصے

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس