بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

بینک کی ملازمت کا حکم، قومی بچت کے سودی اکاؤنٹ میں رقم رکھوانا، بینک سے قسطوں پر گاڑی خریدنا

سوال

نمبر۱۔ میرا سوال ہے کہ بینک میں ملازمت کرنا کیسا ہے ، حلال ہے یا حرام؟
نمبر۲۔اگر کوئی شخص پیسے بینک میں قومی بچت اکاؤنٹ میں رکھوا دے تو کیا یہ حلال ہے یا حرام؟ اور اس صورتحال میں قومی بچت اکاؤنٹ میں رکھوائے گئے کہ بیوہ عورت کی کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، تو کیا یہ حلال ہے یا حرام؟
نمبر۳۔بینک سے قسطوں پر گاڑی لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

نمبر۱۔بینک کی ایسی ملازمت جس کاتعلق براہِ راست سودی معاملات سےہویااس میں کوئی حرام کام کرنا پڑتا ہو جیسے مینجراورکیشئیروغیرہ کی ملازمت۔ایسی ملازمت کرنا جائزنہیں۔
نمبر۲۔قومی بچت کےسودی اکاؤنٹ میں رقم رکھوانااورنفع حاصل کرناحرام ہےاس لئےاس سےاجتناب ضروری ہےالبتہ کسی اسلامی بینک میں مضاربۃ اکاؤنٹ کھلواکراس سےنفع حاصل کرنےکی گنجائش ہے۔
نمبر۳۔سودی بینک چونکہ عموماًقسطوں پرخریدوفروخت کی شرعی شرائط کالحاظ نہیں کرتےاس لئےان سےیہ معاملہ کرناشرعاًجائزنہیں تاہم قسطوں پرگاڑی وغیرہ خریدنےکاعمل اسلامی بینکوں سے کرنےکی گنجائش ہے۔
الصحیح للمسلم(حدیث نمبر: 4093باب لعن اکل الربووموکلہ)
 عن جابررضی اللہ عنہ قال: ” لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله وكاتبه وشاهديه وقال: هم سواء”۔
تکملۃ فتح الملھم(1/388)دارالعلوم کراچی
إن التوظف فی البنوک الربویۃ لایجوز،فإن کان عمل المؤظف فی البنک مایعین علی الربٰوکالکتابۃ أوالحساب لأنہ إعانۃ علی المعصیۃ۔وأما إذاکان العمل لاعلاقۃ لہ بالربٰوجازفیہ التوظف ولایرد علیہ اخذالاجرۃ من المال الحرام لان  مال البنک الذی تعطی منہ الاجرۃ مخلوط غالبہ حلال،لان غالبہ من رأس المال والودائع والمفروض فیہ  انہ حلال۔
بدائع الصنائع(10/597)دار الكتب العلمية
واما الذی یرجع الی نفس القرض فھوان لایکون فیہ جر منفعۃ فان کان لم یجز۔
اعلاء السنن(13/6442)(باب کل قرض جر منفعۃ) دار الفكر
عن علی امیرالمؤمنین رضی اللہ عنہ مرفوعاً” کل قرض جرمنفعۃ فھو ربٰو”۔
فقہ البیوع(1/524)معارف القرآن
وکما یجوز ضرب الاجل لاداء الثمن دفعۃ واحدۃ،کذالک یجوز ان یکون اداء الثمن بشرط ان تکون اٰجال الاقساط ومبالغتھا عندالعقد۔وقدیسمیٰ(البیع بالتقسیط)۔
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (361)المعروفية
اما الأموال المودعة في المصارف الإسلامية، البنوك الإسلامية لا تعمل على أساس الفائدة الربوية، بل إنما تقبل هذه الودائع على أن يشاركها أصحابها في ربحها إن كان هناك ربح، فليست هذه الودائع في البنوك الإسلامية قروضا، وإنما هي رأس مال في المضاربة، وإنها تستحق حصة مشاعة من ربح البنك، وتحتمل حصة مشاعة من الخسران إن كان هناك خسران، وليست مضمونة على البنك، فلا يضمن البنك أصلها ولا ربحها، إلا إذا حصل هناك تعد من قبل البنك، فإنه يضمن بقدر التعدي۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس