بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

بھائیوں کے ساتھ بلا معاملہ کام کرنا

سوال

بھائیوں میں میرا پانچواں نمبر ہے۔ والد نے بڑے بھائی شاکر کے ساتھ مل کر چھوٹاسا کاروبار شروع کیا۔ اور ان سے چھوٹے بھائی ذاکر نے علیحدہ اپنا کا کاروبار شروع کیا۔ اس وقت ہم تینوں بھائی پڑھتے تھے۔ والد کا کاروبار کچھ زیادہ اچھا نہیں چلتا تھا پھر والد صاحب حیدر آباد چلے گئے اور پارٹنر شپ پر فیکٹری شروع کی اور وہاں سے جو بھی والد صاحب کماتے تھے کیش اور مال کی صورت میں وہ سب اسی کا روبار میں لگاتے تھے اور والدنے تیسرے نمبر کے بھائی ناصر کو شاکر بھائی کے ساتھ کاروبار میں شامل کر لیا۔ کاروباربہت اچھا ہوتا گیا، وقت کے ساتھ ساتھ اور دوسرے بھائی کا کاروبار بھی اچھا ہوتا گیا ۔
میرے بھائیوں نے میرے لیے کچھ نہیں کیا اور مجھے سے پہلے بڑے بھائی نے اپنی دکان میں ملازموں کی طرح کام کروایا اور پھر ان سے چھوٹے بھائی نے کئی سال اپنی دکان میں کام محنت مزدوری کرواتے رہے، لیکن میرے کاروبار کیلئے کسی نے کچھ نہیں کیا۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا پھر تیسرے بھائی نے اپنے ساتھ ملایا اور مجھے سے محنت مزدوری کرواتے رہے۔ میری شادی کے بعد میرے والد صاحب نے میرے لئے دکان خریدی، میرے نام کی اور چھوٹا سا کاروبار شروع کیا اور تقریبا 12 سال تک کا روبار کیا، لیکن کا روبار چل نہ سکا اور بند کر دیا اور مجھے دوبارہ بڑے بھائی کے پاس بھیج دیا اور میں دوبارہ بڑے بھائی کے پاس محنت ومزدوری کرنے لگا، بہت مشکل سے گزارا ہوتا تھا۔ اور وہ دکان کرائے پر دے دی۔ والد صاحب نے بڑے بھائی سے میرے لیے ایک دکان میرے نام کر وائی۔ بھائی کے پاس تقریبا 12 سال کام کیا اس کا سارا کام میں نے سنبھالا ہوا تھا۔
میرے حالات دیکھتے ہوئے والد نے بڑے بھائی سے دکان میرےنام کر وائی ، میں نے والد صاحب کو منع کیا کہ آپ بھائی سے زیادتی کررہے ہیں تو والد صاحب نے مجھے سمجھایا کہ اس کے کاروبار میں میں نے پیسہ لگایا ہے اس لیے میراحق بنتاہے اور اس حق کے تحت میں یہ دکان اس سے لے کر تجھے دے رہاہوں، اس دکان کی وجہ سے گھر میں کافی ٹینشن رہی اور میں نے بھائی کو دکان واپس لینے کےلئے کہا تو انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ یہ دکان تمہیں دےدی ہے، اب یہ تمہاری ہے، میں نے پھر انکار کیا تو پھر بھائی نے مجھے ایک گھر دینے کی آفر کی جو انہوں نے اپنے بیٹے کےلئے خریدا تھا لیکن میں نے اس کو بھی منع کردیا، لیکن بھائی نے کہا کہ دکان میں اب نہیں لوں گا، یہ دکان تمہاری ہے، ہماری یہ ساری باتیں والد صاحب نے سن لی اور بھائی کے جانے بعد والد صاحب نے ہم دونوں میاں بیوی کو بہت ڈانٹا اور کہا کہ آج دکان واپس کرنے کی بات کردی، آئندہ مت کرنا، ورنہ میں بہت بُرا پیش آوں گا۔ رمضان سے پہلے والد صاحب فوت ہوئے تو کچھ دنوں بعد میں نے بھائی سے دکان مانگی تو بھائی نے انکار کردیا کہ یہ دکان میری ہے، میں بہت پریشان ہوا بھائی کے اس نکار سے، کچھ دنوں بعد میں نے دوبارہ کہا تو کہنے لگے کہ 20 لاکھ لے لو، دکان نہیں دوں گا اور کہا کہ دکان بیچ کر والد اور والدہ کے نام ٹرسٹ میں دوں گا۔جب میں نے دوبارہ ایک مرتبہ پھر کہاتو اس نے کہا آپ کے بارے میں سب بھائیوں نےمل کر یہ فیصلہ کیا کہ جتنی بھی جائیداد والد صاحب نے اپنی زندگی میں میرے نام کر گئے تھے وہ سب والد صاحب کی وراثت میں شامل ہے اور کہا کہ ایک حدیث کی رو سے والد اپنی زندگی میں جائیداد کسی بیٹے کےنام نہیں کر سکتے، یہ سب جائیداد وراثت میں آتی ہیں، اس لئے یہ ہم سب میں تقسیم ہوں گی اور مجھے کہاکہ ہم آپ کو 50 لاکھ دیں گے اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔ ایک چھوٹا پلاٹ ہے اس پلاٹ پر ہمارے پڑوسی سے تقریبا 30 سال سے زیادہ عرصہ تک مقدمہ چلتا رہا صلح صفائی کے بعد جتنی جگہ میرے والد کے حصے میں آئی وہ اور میرے چچا سے میرے والد نے ان کے حصےکی زمین خریدلی اور اس کی ادائیگی میرے کاروبار سے ادا کی گئی یہ تینوں چیزیں وراثت میں شامل کر کے مجھے 50 لاکھ کی آفر کررہے ہیں۔ جبکہ میں چاہتا ہوں کہ مجھے میرا جو شریعت کی رو سے حق بنتا ہے وہ مجھے دیں۔
وضاحت اور تنقيحات
نمبر ۱۔جو دوکان والد صاحب نے مجھے ہبہ کی تھی اس کے اصل خریدار والد صاحب ہیں جنہوں نے با قاعدہ مالک بنا کر وہ دکان دی تھی بعد میں حالات کی وجہ سے مجھے وہاں سے نکال کر دوسرے بھائی کے ساتھ کام پر لگادیااور یہ دکان ایک بھائی کو کرایہ پر دے دی جس کا کرایہ زندگی میں والد صاحب لے رہے ان کے انتقال کےبعد مجھے مل رہاہے،بھائی اس کو بھی میراث میں شامل کر نا چاہتے ہیں۔
نمبر ۲۔بھائیوں کے ساتھ میں نے اس خیال سے کام کیا کہ حقیقی بھائی ہیں میرا خیال کریں گے، کوئی معاملہ طے نہیں ہواتھا، چھوٹا تھا سکول کالج میں پڑھتا تھا پھر دکان آجاتاتھا۔
نمبر ۳۔بڑے بھائی کی بیوی سے جو مکان لی گئی ، اس کے اصل خریدار بھی والد صاحب تھے جومجھے گفٹ کرنا چاہ رہے تھے، لیکن میرے قبضہ میں نہیں دی ، زندگی میں بھائی دینا چاہ رہاتھا ،والد کے انتقال کے بعد وہ منکر ہو گیا۔
نمبر ۴۔جس پلاٹ کا مقدمہ چل رہا تھا والد صاحب نے وہ بھی صلح کر کے اپنے لئے لیا، اس کے اخراجات میری دکان سے تھے، اس کے کچھ حصہ کو فروخت کردیا اور کچھ میں ہماری ایک ہمشیرہ کو عارضی طورپر ٹھہرا دیا ، عید کے بعد وہ اس کو خالی کردیں گی۔
نمبر ۵۔بڑے بھائی جو کاروبار کررہے ہیں وہ بنیادی طورپر والد کا ہے اس میں سارا سرمایہ والد صاحب کا لگا ہوا ہے، والد صاحب نے انہیں اس کا مالک نہیں بنایا بلکہ والد صاحب کی وفات تک والد اور بڑے بھائی اکھٹے کام کرتے رہے۔ زندگی میں والد صاحب نے جائیداد کی تقسیم کا ارادہ بھی کیا تھا لیکن والدہ نے منع کردیاتھا۔
نمبر ۶۔والد صاحب کی کل میراث میں سے میرے حصہ کے عوض جو وہ مجھے رقم دینا چاہتے ہیں مجھے وہ قبول نہیں، میں اس پر راضی نہیں، مجھے اپنا شرعی حق چاہئے۔

جواب

آپ كے سوال،تنقیحات اور متعلقہ کاغذات کو ملاحظہ کرنے کے بعدجواب میں چندامور لکھے جاتے ہیں جن سے انشاء اللہ آپ کے سوال کے تمام پہلوؤں کاجواب حاصل ہوجائے گا
نمبر ۱۔سب سے پہلے یہ سمجھیں کہ اخلاقی طورپرکسی عزیزرشتہ دارکے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کرنا بلاشبہ باعثِ اجروثواب ہےاوراللہ کی خوشنودی کاذریعہ ہے،نیزجس پراحسان کیاجائے اس کی اخلاقی ذمہ داری بھی یہ ہے کہ احسان اور نیکی کابدلہ احسان کے ساتھ دےلیکن یہ اس کی شرعی ذمہ داری نہیں کیونکہ جب تک کوئی کام باقاعدہ معاملہ ومعاہدہ کرکے نہ کیاجائےدنیامیں اس پرشرعی حکم نہیں لگتا۔اس لئے آپ نے مختلف اوقات میں حسنِ سلوک کےطورپراپنے بھائیوں کے ساتھ ان کےکاروبارمیں عملاًجوتعاون کیاہےآپ کے بھائیوں پرشرعاًاس کاکوئی عوض لازم نہیں، البتہ اخلاقاً انہیں چاہئے کہ رشتہ وقرابت داری اورآپ کے اخلاقِ کریمانہ کومدنظر رکھتے ہوئے اس مشکل میں آپ کی مددکریں۔ نیزاب تک جس بھائی نے آپ کے اس حسنِ سلوک کی بدولت آپ کو جوکچھ دیاوہ بھی ان کی طرف سے احسان ہے۔
نمبر ۲۔آپ کے والدمرحوم نے اپنی زندگی میں جودکان خریدکرآپ کوہبہ(گفٹ)کردی تھی اور آپ کوباقاعدہ اس کا مالک وقابض بنادیاتھا،وہ دکان آپ ہی کی ہے، والدصاحب کی میراث میں شامل نہیں ہوگی۔اولاد میں سے اگرکوئی محتاج ہواور باپ اس کی حاجت وضرورت کے پیشِ نظر اپنی زندگی میں کوئی پلاٹ، جائیدادوغیرہ اسے دیدے تویہ جائزہے، ممنوع نہیں ہے۔ ہاں اگردیگراولاد کوضررپہنچانے کی غرض سے ایساکیاجائے تووہ ازروئے حدیث ممنوع ہے۔
نمبر ۳۔آپ کے والدمرحوم ،شاکر اور ان کی اہلیہ سے جودکان لے کرآپ کودیناچاہ رہے تھے،لیکن اپنی زندگی میں آپ کومالک وقابض بناکردے نہیں سکے، شرعاً آپ اس کے مالک نہیں ہیں،کیونکہ جائیدادصرف کاغذات میں کسی کے نام ہوجانےسےنہ تووہ خریداربنتاہے اور نہ ہی گفٹ مکمل ہوتاہے،بلکہ شرعاً خریدارمعاملہ کرنے والاہی ہوتاہے،اور ہبہ مکمل ہونے کے لئے مالک وقابض بناکردینا ضروری ہے۔پھراگروہ دکان والدِ مرحوم نے شاکر کی اہلیہ سےخریدی تھی اوران کے مابین خریداری کا معاملہ مکمل ہوگیاتھا تویہ والدمرحوم کے ترکہ میں شامل ہوگی۔
نمبر ۴۔والدِ مرحوم نے صلح کرکے جوپلاٹ حاصل کیا تھاوہ ترکہ میں شامل ہوگا۔
نمبر ۵۔والدِ مرحوم نے اپنے انتقال کے وقتاپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیرمنقولہ مال وجائیداد، مکان، پلاٹ، سونا،چاندی، نقدی، کاروبار،مالِ تجارت،کپڑے،برتن اور چھوٹا بڑا جو بھی گھرکا سازوسامان چھوڑا ہے وہ سب مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس میں سےحقوقِ ثلاثہ یعنی کفن ودفن کےاخراجات (اگر کسی نے بطورِ احسان اپنی طرف سے ادانہ کئے ہوں)، وصیت(اگرمرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو)اور قرض (اگرمرحوم پرہو) شرعی احکامات کےمطابق ادا کرنے کے بعد باقی ماندہ مال ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کرناضروری ہےاور کسی وارث کو اس کی خوشدلی کے بغیرمیراث سے کم حصہ دیناجائزنہیں، لہٰذا آپ کے بھائیوں کاآپ کی خوشدلی کے بغیرآپ کوپچاس لاکھ روپے دینے کافیصلہ کرنا درست نہیں بلکہ شریعت کی رو سے والدصاحب کی میراث میں سے جتناآپ کاحصہ بنتاہے وہ دیناضروری ہے۔ اسی طرح سب ورثاء کی اجازت کے بغیرترکہ کے کسی حصے کوکارِ خیرمیں وقف کرنابھی جائز نہیں ۔ہاں اگرمیراث کی تقسیم کے بعد کوئی وارث اپناحصہ کارِ خیرمیں وقف کرناچاہے توکرسکتاہے۔
واضح رہے کہ والدِ مرحوم نے اگراپناکاروبار اپنی زندگی میں باقاعدہ کسی کومالک وقابض بناکرنہیں دیابلکہ آپ کا کوئی بھائی بطورمعاون کے والدِ مرحوم کے ساتھ ان کےکاروبارمیں شریک رہاوہ بھی ترکہ میں شامل ہوگا، ہاں اگرکوئی بھائی والدصاحب کےساتھ کاروبار میں سرمایہ لگاکرکاروبارمیں شریک(پارٹنر)بن گیاہوتواپنے حصہ سرمایہ کے بقدر وہ بھائی اس کامالک ہوگا،اسے ترکہ میں شامل نہیں کیاجائیگا۔
الصحیح لمحمد بن إسماعيل البخاري(م: 256 هـ)(۱/۳۵۷)قدیمی
عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ليس لنا مثل السوء، الذي يعود في هبته كالكلب يرجع في قيئه۔
شرح المجلۃ، سلیم رستم باز (۴۶۲)
وتتم بالقبض الکامل لانھامن التبرعات والتبرع لایتم الابالقبض۔
تکملۃ فتح الملھم، الشيح المفتي تقي العثماني(2/71)دار العلوم كراچي
فالذی یظھر لھذاالعبد الضعیف عفااللہ عنہ أن الوالد ان وھب لاحد ابنائہ ھبۃ أکثر من غیرہ اتفاقا أو بسبب علمہ او عملہ او برہ بالوالدین من غیر ان یقصد بذلک اضرارالاخرین ولاالجور علیھم جائزا۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس