بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

بيوي،2 بيٹے او ر 2 بیٹیوں كے درميان تقسيم ميراث اور تقسيم ميں ركاوٹ ڈالنا

سوال

نمبر۱۔جگہ 50× 30 فٹ ورثاء : والدہ ، بیٹا ، بیٹا ، بیٹی ، بیٹی اگر قرض یا دین ہو تو کیا حکم ہے؟
نمبر۲۔ کوئی حصہ دار الگ ہونے میں مجاز با اختیار ہے ۔ اپنی مالی وسعت یا تدبیر سے دوسرے حصہ دار کو پیشکش کرسکتے ہیں ضد ، رکاوٹ ، سٹے یا کوئی قانونی چارہ کیا جاسکتا ہے۔ نیز ایسا کون کرنے کا مجاز ہے؟ نمبر۳۔ کسی کی مالی انتظامی حالت ابتر ہے تو کیا دوسرے حصہ دار تقسیم کے عمل کو مجبوراً رد کیا یا خراب کیا جانا جائز ہے؟

جواب

نمبر۱۔ مرحوم کے ترکہ کی تقسیم سے پہلے مرحوم کی تجہیز وتکفین کا خرچہ ترکہ سے پورا کیا جائے گا اس کے بعد مرحوم کے ذمے اگر کسی کا قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے گا اس کے بعد اگر مرحوم نے وصیت کی ہوتو ترکہ کے ثلث سے وصیت پوری کی جائے گی۔
نمبر۲۔ ان تمام امور کےبعد اگر مذکورہ ورثاء کے علاوہ کوئی اور وارث نہیں ہے تو جائیداد کے کل 48 حصے کرکے ہر بیٹے کو 14 حصے اور ہر بیٹی کو 7 حصے اور مرحوم کی بیوی کو 6 حصے دیے جائیں گے۔ اگر کوئی حصہ دار اپنی رضامندی سے جائیداد سے دستبردار ہونا چاہے تو صرف زبان سے کہہ دینا کافی نہیں ہوگا بلکہ ترکہ میں سے کوئی بھی چیز لے کر صلح کرلےاس طرح وراثت سے اس کا حصہ ختم ہوجائے گاالبتہ کسی کے حصے کو اس کی دلی رضا کےبغیر زور ،زبر دستی سے حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔
نمبر۳۔ وراثت کو ورثاء میں فوراً تقسیم کردینا چاہیے بالخصوص جب ورثاء میں سے کوئی اس کا مطالبہ کرے،ترکہ کی تقسیم کےعمل کو بد نیتی سے روکنا یا خراب کرنا جائز نہیں ہے۔
ترکہ کے ٹوٹل 48حصے
بیٹیاں2
بیٹے2
بیوی
7+7 =14
14+14=28
6
رد المحتار على الدر المختار (6/ 260) سعيد
(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى
الفتاوى الهندية (4/ 268) دارالفكر
(الباب الخامس عشر في صلح الورثة والوصي في الميراث والوصية) إذا كانت التركة بين ورثة فأخرجوا أحدهما منها بمال أعطوه إياه والتركة عقار أو عروض صح قليلا كان ما أعطوه أو كثيرا
تبيين الحقائق (5/ 31) المطبعة الكبرى الأميرية
(فإن وقع عن مال بمال بإقرار اعتبر بيعا)؛ لأن معنى البيع قد وجد فيه، وهو مبادلة المال بالمال عن تراض فتجري فيه أحكام البيوع، وهذا؛ لأن الأصل في الصلح أن يحمل على أشبه العقود له فتجري عليه أحكامه

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس