بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

بریلوی ، اہل حدیث کی اقتداءکرنا

سوال

جب اہل السنت والجماعت کی مسجدنزدیک نہ ہو تو بریلوی اور غیرمقلدین کےپیچھے نماز کاکیاحکم ہے؟جائز ہےیاناجائز ،اولی ہےیاغیراولی ؟امام کاعقیدہ معلوم ہویانہ ہو؟(عموماًسب کے وہی عقائد ہوتے ہیں جوان کے بارے میں معروف ہیں )۔

جواب

بريلوی حضرات کے عقائد عام طور پرمشرکانہ نہیں ہوتے کیونکہ جن عقائد میں وہ اہلِ سنت والجماعت سے ہٹے ہوئے ہیں ان میں وہ تاویل کرتے ہیں اوربالکل اللہ تعالیٰ کی طرح حضورﷺکوہرجگہ حاضر ناظر،مختار کل اور عالم الغیب نہیں مانتے بلکہ ذاتی اور عطائی کا فرق کرتے ہیں اس لئے علماء نے انہیں کافرنہیں کہاہے بلکہ وہ بدعتی اور فاسق ہیں(ملاحظہ فرمائیں فتاوی دارالعلوم دیوبند “امداد المفتین” مفتی محمد شفیع(1362ھ)(ص:۱۳۸)دار الاشاعت اورفتاوی دارالعلوم کراچی”امداد السائلین” (2/۲۴۱)ادارۃ المعارف کراچی) انہیں اپنے اختیار سے امام بنانا مکروہ ِ تحریمی اور ناجائز ہے، اور بااختیار آدمی پر بدعتی امام کوامامت سے ہٹانالازم ہے، البتہ اگر اسے امام بنانے یاامامت سے ہٹانے میں کوئی اختیاریا عمل دخل نہ ہواور کسی صالح اور صحیح العقیدہ امام کے پیچھے دوسری جماعت بھی بہ آسانی میسر نہ ہوتو تنہانماز پڑھنے کے مقابلے میں بریلوی امام کے پیچھے ہی نماز پڑھناافضل ہے۔
اسی طرح غیر مقلد امام كے بارے میں یقین یاظن غالب سے معلوم ہوکہ وہ حنفی مذہب کے مطابق نمازكے ارکان وشرائط کی رعایت کرتاہے تو اس کی اقتداء میں نمازاداکرنا درست ہے اوراگر یقین یاظن غالب ہو کہ وہ حنفی مذہب کے مطابق پاکی ناپاکی کےمسائل کا خیال نہیں رکھتا، مثلاً خون نکل کر بہہ جانے کی صورت میں نماز کے لئے وضو نہیں کرتا، اسی طرح نیلون کی جرابوں پر مسح کرتا ہےاس کے پیچھے نماز ادا نہیں ہوتی ،اورجس كے بارے میں شک ہواس کی اقتداء مکروہ ہے البتہ مجبوری کی صورت میں (جہاں قریب میں دوسری جماعت میسر نہ ہو)تنہا نماز پڑھنےکی بجائے جماعت کی فضيلت حاصل کرنے کے لئے اس صورت میں مذکور امام (جس كے بارے میں شک ہو)کی اقتدا میں نمازپڑھ لینا بہتر ہے ۔
 الفتاوى الهندية،لجنةالعلماء برئاسة نظام الدين البلخي(1/84)دارالفكر
وحاصله إن كان هوى لا يكفر به صاحبه تجوز الصلاة خلفه مع الكراهة وإلا فلا هكذا في التبيين والخلاصة وهو الصحيح هكذا في البدائع… ولو صلى خلف مبتدع أو فاسق فهو محرز ثواب الجماعة لكن لا ينال مثل ما ينال خلف تقي كذا في الخلاصة
  الدرالمختار،علاء الدين محمد بن علي الحصكفي(م:1088ھ) (1 /563)دارالفكر
لكن في وتر البحر إن تيقن المراعاة لم يكره أو عدمها لم يصح إن شك كره
  البحرالرائق،العلامة ابن نجيم المصري(م:970هـ) (1/370)دارالكتاب الإسلامي
 وأما المبتدع فهو صاحب البدعة وهي كما في المغرب اسم من ابتدع الأمر إذا ابتدأه وأحدثه كالرفقة من الارتفاق والخلفة من الاختلاف ثم غلبت على ما هو زيادة في الدين أو نقصان منه…   وأطلق المصنف في المبتدع فشمل كل مبتدع هو من أهل قبلتنا وقيده في المحيط والخلاصة والمجتبى وغيرها بأن لا تكون بدعته تكفره، فإن كانت تكفره فالصلاة خلفه لا تجوز وعبارة الخلاصة هكذاوفي الأصل الاقتداء بأهل الأهواء جائز إلا الجهمية والقدرية والروافض الغالي ومن يقول بخلق القرآن والخطابية والمشبهة وجملته أن من كان من أهل قبلتنا ولم يغل في هواه حتى يحكم بكفره تجوز الصلاة خلفه وتكره
 ردالمحتار،العلامة ابن عابدين الشامي(م:1252هـ)(1/563) سعید
(قوله لكن في وتر البحر إلخ) هذا هو المعتمد، لأن المحققين جنحوا إليه، وقواعد المذهب شاهدة عليه. وقال كثير من المشايخ: إن كان عادته مراعاة مواضع الخلاف جاز وإلا فلا، ذكره السندي المتقدم ذكره
قلت: وهذا بناء على أن العبرة لرأي المقتدي وهو الأصح….  (قوله إن تيقن المراعاة لم يكره إلخ) أي المراعاة في الفرائض من شروط وأركان في تلك الصلاة وإن لم يراع الواجبات والسنن كما هو ظاهر سياق كلام البحر. مطلب في الاقتداء بشافعي ونحوه هل يكره أم لا؟…   وأما الاقتداء بالمخالف في الفروع كالشافعي فيجوز ما لم يعلم منه ما يفسد الصلاة على اعتقاد المقتدي عليه الإجماع، إنما اختلف في الكراهة….  ذهب عامة مشايخنا إلى الجواز إذا كان يحتاط في موضع الخلاف وإلا فلا.والمعنى أنه يجوز في المراعي بلا كراهة وفي غيره معها. ثم المواضع المهملة للمراعاة أن يتوضأ من الفصد والحجامة والقيء والرعاف ونحو ذلك، لا فيما هو سنة عنده مكروه عندنا؛ كرفع اليدين

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس