بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

اگر گاہک دکان پر اپنی اشیاءبھول جائے؟

سوال

میں ایک کاروباری آدمی ہوں، ہمارے ہاں دکان میں بعض دفعہ گاہک سامان خریدکر لے جانابھول جاتےہیں یا بعض دفعہ زیادہ رش کی وجہ سےہم گاہک کو بقیہ رقم واپس کرنابھول جاتےہیں اور بعض دفعہ گاہک جلدی میں رقم لینا بھول جاتا ہے۔اب دریافت طلب امر یہ ہےکہ مذکورہ سامان  اور رقم کے بارے ہمارے لئےکیا حکم ہے؟جبکہ ہمارےپاس کوئی ایسا ذریعہ بھی نہیں کہ اس کی معلومات  حاصل کرکےسامان یا رقم اس گاہک تک پہنچاسکیں۔

جواب

اگرکوئی گاہگ  آپ سےسامان خرید کر حفاظتًاآپ کےپاس رکھواکر چلا جاتا ہے کہ واپس آکر آپ سے لےلےگاتویہ ودیعت (امانت )ہے،مالک کی واپسی یا اس کےپتہ چلنےتک اس  ودیعت کی حفاظت ضروری ہے،چاہے اس میں کتنا ہی عرصہ گزرجائے،اگر آپ رش وغیرہ کی وجہ سےرقم وسامان دینا بھول جاتےہیں یاگاہک وصول کرنا  بھول جاتا ہےتو اس صورت میں وہ رقم وسامان آپ کےپاس بطور”لقطہ” ہے۔ حتی الامکان اس کے مالک کو تلاش اور تشہیرکرکےرقم وسامان اس تک پہنچانا آپ پرلازم ہے۔ نیزمالک کو تلاش وتشہیر کرنا اس وقت تک لازم ہےجب تک یقین ہو کہ وہ اپنی رقم اور سامان کو تلاش کررہا ہوگا۔ اور جب اس کی طرف  سےتلاش ختم کرنے  کا یقین ہو جائے تومالک کی طرف سےوہ رقم کسی فقیرکو صدقہ کردی جائے،  البتہ صدقہ کےبعد مالک مل جائے  تو اس کو اختیارہوگاچاہےصدقہ کو برقراررکھےیا آپ سےرقم کا مطالبہ کرے تواس صورت میں آپ پر رقم واپس کرنا ضروری ہوگا۔
:سنن أبي داود،سليمان بن الأشعث(م:275هـ)(2/ 136)المكتبة العصرية
عن عياض بن حمار، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من وجد لقطة فليشهد ذا عدل أو ذوي عدل، ولا يكتم ولا يغيب فإن وجد صاحبها فليردها عليه، وإلا فهو مال الله عز وجل يؤتيه من يشاء
:ردالمحتار،العلامة ابن عابدين الشامي(م: 1252هـ)(5/ 676)سعيد
غاب رب الوديعة، ولا يدري أهو حي أم ميت يمسكها حتى يعلم موته، ولا يتصدق بها بخلاف اللقطة
:الفتاوى الهندية (4/ 354)رشيدية
غاب المودع ولا يدري حياته ولا مماته يحفظها أبدا حتى يعلم بموته وورثته، كذا في الوجيز للكردري. ولا يتصدق بها بخلاف اللقطة… وإذا مات رب الوديعة فالوارث خصم في طلب الوديعة
:المبسوط لمحمد بن أحمد،السرخسي(م: 483هـ)(11/ 3)دار المعرفة
فأما (النوع الثاني) وهو ما يعلم أن صاحبه يطلبه فمن يرفعه فعليه أن يحفظه ويعرفه ليوصله إلى صاحبه… وإنما يعرفها مدة يتوهم أن صاحبها يطلبها وذلك يختلف بقلة المال وكثرته… ولكنا نعلم أن التعريف بناء على طلب صاحب اللقطة، ولا طريق له إلى معرفة مدة طلبه حقيقة فيبنى على غالب رأيه، ويعرف القليل إلى أن يغلب على رأيه أن صاحبه لا يطلبه بعد ذلك، فإذا لم يجئ صاحبها بعد التعريف تصدق بها؛ لأنه التزم حفظها على مالكها، وذلك باتصال عينها إليه إن وجده وإلا فباتصال ثوابها إليه، وطريق ذلك التصدق بها فإن جاء صاحبها فهو بالخيار إن شاء ضمنه لأنه تصدق بماله بغير إذنه، وذلك سبب موجب للضمان عليه، وإن شاء أنفذ الصدقة فيكون ثوابها له وإجازته في الانتهاء بمنزلة إذنه في الابتداء

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس