سائل كے والد مرحوم نے 83 برس كی عمر پائی اور 50 برس تك نمازوں كو ترك كرتے رہے پھر توبہ کرکے نمازیں شروع کردیں اور تا دم آخر نماز کے خوب پابند رہے۔ سائل کو اپنے والد محترم کی 50 برس سے پہلے کی نمازوں کی بہت فکر ہے اس کا فدیہ ادا کرنے کی دلی تمنا ہے فدیہ کے ذیل میں چند سوال مطلوب ہیں۔
نمبر۱۔فدیہ ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
نمبر۲۔50برس سے پہلے کی فوت شدہ نمازوں کا حساب کیسے لگایا جائے گا؟
نمبر۳۔اگر اتنا زیادہ فدیہ ادا کرنے کی استطاعت نہ ہو تو شریعت نے اس میں کوئی گنجائش رکھی ہے؟ اگر ہے تو اس کی بھی وضاحت فرمادیں۔
ابتداء یہ بات واضح رہے کہ اگر مرحوم نے قضاء نمازوں کے فدیہ کی وصیت کی تھی، تب تو ان کے ثلث مال سے وصیت پور ی کرنا واجب ہوگا اور اگر یہ وصیت نہیں کی تو اس صورت میں ورثاء پر فدیہ ادا کرنا واجب نہیں، البتہ بالغ ورثاء اپنے مال سے تبرعا فدیہ اداء کر سکتے ہیں۔ ایک نماز کا فدیہ (نصف صاع) پونے دو سیر گندم یا اس کی قیمت ہے، ایک دن میں پانچ فرضوں اور وتر کو ملا کر چھ نمازوں کا فدیہ ا دار کرنا ہو گا، البتہ فدیہ کی ادائیگی میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ایک فقیر کو کم از کم ایک نماز کا فدیہ ضرور ملنا چاہیے اور زیادہ نمازوں کا فدیہ بھی دیا جا سکتا ہے، نیز یہ بات واضح رہے کہ فدیہ کا مصرف وہی ہے جو زکوۃ کے مصارف ہیں۔
نمبر۲۔بارہ سال کی مدت منہا کرکے بقیہ 38 سالوں کی نمازوں کاحساب درج بالا اصول کے مطابق کرکے فدیہ ادا کر لیا جائے۔
نمبر۳۔اگر مکمل فدیہ ادا کرنے کی استطاعت نہ ہو تو اس صورت میں یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ کل فدیہ کا حساب لگا لیں اس کے بعد جتنی رقم فدیہ کے طور پر دے سکتے ہیں وہ آپ کسی مستحق کو دیدیں وہ مستحق فقیر اس پر قبضہ کے بعد اپنی رضامندی سے بطور ہبہ اسی شخص کو دیدے اسی طرح دیتے لیتے رہیں یہاں تک کہ تمام نمازوں کا فدیہ اداء ہو جائے۔ اللہ تعالٰی کی رحمت سے امید ہے کہ اس عمل سے میت کی براءت ہو جائیگی۔
:الدر المختارعلاء الدین الحصکفی(م:1088ھ)(2/ 72)ایچ۔ایم۔سعید
(يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله) ولو لم يترك مالا يستقرض وارثه نصف صاع مثلا ويدفعه لفقير ثم يدفعه الفقير للوارث ثم وثم حتى يتم۔
:رد المحتار،ابن عابدین الشامی(م:1252ھ)(2/ 72)ایچ۔ایم۔سعید
(قوله يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر۔۔۔۔ (قوله نصف صاع من بر) أي أو من دقيقه أو سويقه، أو صاع تمر أو زبيب أو شعير أو قيمته، وهي أفضل عندنا لإسراعها بسد حاجة الفقير إمداد۔
:الدر المختار علاء الدین الحصکفی(م:1088ھ) (2/ 74)ایچ۔ایم۔سعید
ولو أدى للفقير أقل من نصف صاع لم يجز؛ ولو أعطاه الكل جاز۔
:رد المحتار ،ابن عابدین الشامی(م:1252ھ) (2/ 73)ایچ۔ایم۔سعید
والأقرب أن يحسب ما على الميت ويستقرض بقدره، بأن يقدر عن كل شهر أو سنة أو يحتسب مدة عمره بعد إسقاط اثنتي عشرة سنة للذكر وتسع سنين للأنثى لأنها أقل مدة بلوغهما۔
:حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح ،محمد بن اسماعيل(م:1231)(ص: 439)رشیدیۃ
“وإن لم يف ما أوصى به” الميت “عما عليه” أولم يكف ثلث ماله أو لم يوص بشيء وأراد أحد التبرع بقليل لا يكفي فحيلته لإبراء ذمة الميت عن جميع ما عليه أن “يدفع ذلك المقدار” اليسير بعد تقديره لشيء من صيام أو صلاة أو نحوه ويعطيه “للفقير” بقصد إسقاط ما يريد عن الميت “فيسقط عن الميت بقدره ثم” بعد قبضه “يهبه الفقير للولي” أو للأجنبي “ويقبضه” لتتم الهبة وتملك “ثم يدفعه” الموهوب له “للفقير” بجهة الإسقاط متبرعا به عن الميت “فيسقط” عن الميت “بقدره” أيضا “ثم يهبه الفقير للولي” أو للأجنبي۔
:الدر المختارعلاء الدین الحصکفی(م:1088ھ)(2/ 72)ایچ۔ایم۔سعید
ولو لم يترك مالا يستقرض وارثه نصف صاع مثلا ويدفعه لفقير ثم يدفعه الفقير للوارث ثم وثم حتى يتم۔