بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

اگرمبیع کے پارٹس چیک لسٹ کے مطابق نہ ہویا عیب ہو تو قیمت کم کرنے کا حکم ؟

سوال

ہماری کمپنی نے گاڑی /مشین خریدی جس کے پارٹس چیک لسٹ کے مطابق شمارکرلئے تھے پھر گاڑی /مشینری کمپنی میں لانے کے بعد کچھ پارٹس گاڑی میں موجود نہیں تھے ۔
نمبر1 :توایسی صورت میں ہمیں کیااختیارات حاصل ہوں گے؟
نمبر2:کیاہم جوحصے موجود نہیں ہیں ان کے مقابلے میں بائع سے قیمت واپس لے سکتے ہیں ؟
نمبر3:اگر مشین یاگاڑی کے حصوں کو شمارکرنے کی چیک لسٹ نہ ہونہ ہی وہ شمار کئے گئے ہوں تو بیع کے بعد گاڑی /مشین کمپنی میں لاکر دیکھا تو عام طور پر جو حصے گاڑی /مشین میں ہوتے ہیں ان میں کمی ہونے پر کیاان کم حصوں کے مقابلے میں بائع سے قیمت واپس کرنے کامطالبہ کرسکتے ہیں ؟یاطے شدہ ثمن پر ہی وہ گاڑی /مشین رکھناہوگی؟یاگاڑی/مشین واپس کرنے کااختیارہوگا؟
نمبر 4:اگر بائع کم حصوں کے وصول ہونے پر گاڑی /مشین واپس نہیں لیتا بلکہ کم حصوں کی قیمت پر تیارہے تو کیاکیاجائے؟

جواب

نمبر2۔1 :-صورت مسؤلہ میں چیک لسٹ کے مطابق مبیع کامعائنہ کر نے کے بعد اگر اس پر اسی وقت قبضہ کر لیا تھا تو اس صورت میں چونکہ مبیع کے اجزاء میں کمی خریدار کے ذمہ داری میں آنے کے بعد ہوئی ہے، اس لئے بائع اس کاذمہ دار نہیں ہوگا۔ نمبر4-3:۔مذکورہ صورت میں اصل حکم یہ ہے کہ خریدار عیب کی وجہ سے مبیع کو واپس کر ے یااسی قیمت پر رکھنے کے لئے راضی ہو جائے ،لیکن اگر دونوں فریق رضامندی سے عیب کی وجہ سے قیمت کی کمی پر راضی ہو جائیں تو جائز ہے۔
فتح القدير،العلامة ابن الهمام (م:861هـ)(6/400)دارالفكر:
ولو وجد به عيبا فاصطلحا على أن يدفع أو يحط دينارا جاز. ولو دفعه المشتري ليرد لم يجز؛ لأنه ربا وزوال العيب يبطل الصلح فيرد على البائع ما بذل أو حط إذا زال، ولو زال بعد خروجه عن ملكه لا يرده، ولو صالحه بعد الشراء من كل عيب بدرهم جاز وإن لم يجد به عيبا…. ولو وجد به عيبا فاصطلحا على أن يحط كل عشرة ويأخذ الأجنبي بما وراء المحطوط ورضي الأجنبي بذلك جاز وجاز حط المشتري دون البائع؛ ولو قصر المشتري الثوب فإذا هو متخرق وقال المشتري لا أدري تخرق عند القصار أو عند البائع فاصطلحوا على أن يقبله المشتري ويرد عليه القصار درهما والبائع درهما جاز.
     البحرالرائق،العلامة ابن نجيم المصري(م:970هـ) (6/39) دارالكتاب الإسلامي:
 (قوله من وجد بالمبيع عيبا أخذه بكل الثمن أو رده) لأن مطلق العقد يقتضي وصف السلامة فعند فواته يتخير كي لا يتضرر بلزوم ما لا يرضى به دل كلامه أنه ليس له إمساكه وأخذ النقصان لأن الأوصاف لا يقابلها شيء من الثمن في مجرد العقد ولأنه لم يرض بزواله عن ملكه بأقل من المسمى فيتضرر به ودفع الضرر عن المشتري ممكن بالرد بدون تضرره أطلقه فشمل ما إذا كان به عند البيع أو حدث بعده في يد البائع وما إذا كان فاحشا أو يسيرا كذا في السراج الوهاج.
فقہ البیوع، مفتی محمدتقی العثمانی حفظہ اللہ( 2/854)معارف القرآن کراتشی:
ثم مقتضی خیار الرد أن المشتری لہ أن یرد المبیع إلی البائع ، ویطالبہ برد الثمن. وہل یجوز لہ أن یمسک المبیع ویرطالبہ ببعض الثمن ضمانا للنقصان(الأرش)؟ اختلفت فیہ الفقہاء.  فمذہب الحنفیۃ والشافعیۃ أنہ لا یحق لہ أن یجبر البائع علی ذلک، وإنما حقہ فی فسخ البیع واسترداد المبیع، أو  إمساکہ بدون مطلبۃ الأرش،  وکذلک لایجوز للبائع أن يجبر المشتری علی إمساک المبیع مع قبول ضمان النقصان.  وعللہ صاحب الہدایۃ بقولہ: ” لأن الأوصاف لایقابلہ شیء من الثمن فی مجرد العقد،  ولأنہ لم یرض بزوالہ عن ملکہ بأقل من المسمی، فیتضرر بہ. ودفع الضرر عن المشتری ممکن بالرد بدون تضررہ. وأما إذا رضی المتبایعان علی الأرش بطریق الصلح جرت علیہ أحکام الصلح عند الحنفیۃ.

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس