بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

اگرفرض نمازکی ادائیگی کےدوران جماعت کھڑی ہوجائے؟

سوال

جماعت میں تاخیر ہونےکی وجہ سےاگر کوئی شخص تنہا فرض نماز پڑھنا شروع کردے اور ساتھ ہی جماعت کھڑی ہوجائے تواس شخص کےلئےفرض نماز کوتوڑکرجماعت میں شامل ہوناچاہیےیا پھرانفرادی طورپراپنی نمازمکمل کرے؟

جواب

اگرکوئی شخص اکیلافرض نمازاداکررہا ہو کہ اسی دوران جماعت شروع ہوجائےتواس صورت میں تفصیل یہ ہےکہ اگرمذکورہ شخص نےپہلی رکعت کاسجدہ کرلیاہوتونمازِفجراورنمازِمغرب میں اپنی نمازتوڑکرامام کےساتھ جماعت میں شامل ہوجائےاور ان دونمازوں کےعلاوہ بقیہ چار رکعت والی نمازوں میں اگرپہلی رکعت کاسجدہ کرلیاہوتو دورکعت مکمل کرکےسلام پھیردےاورامام صاحب کےساتھ جماعت میں شامل ہوجائے اوراگرتیسری رکعت کاسجدہ بھی کرلیاہوتونماز پوری کرے اوربعد میں نفل کی نیت سےامام کےساتھ شریک ہوجائے توبہترہےاگرچہ ضروری نہیں ہےلیکن فجر،عصراورمغرب کی نماز میں نفل کی نیت سےامام کےساتھ شریک نہ ہو۔
:رد المحتار،العلامة ابن عابدين،الشامي(م: 1252هـ)(2/ 52)سعيد
شرع في فرض فأقيم قبل أن يسجد للأولى قطع واقتدى، فإن سجد لهافإن في رباعي أتم شفعاواقتدى ما لم يسجد للثالثة، فإن سجد أتم واقتدى متنفلا إلا في العصروإن في غير رباعي كالفجر والمغرب فإنه يقطع ويقتدي أيضا مالم يقيد الثانية بسجدة، فإن قيدها أتم، ولا يقتدي لكراهة التنفل بعد الفجر، وبالثلاث في المغرب وفي جعلها أربعا مخالفة لإمامه.
:مراقي الفلاح،حسن بن عمار،الشرنبلالي(م: 1069هـ)(ص: 174 ) المكتبة العصرية
إذا شرع في فرض منفردا فأقيمت الجماعة قطع واقتدى إن لم يسجد لما شرع فيه أو سجد في غير رباعية وإن سجد في رباعية ضم ركعة ثانية وسلم لتصير الركعتان له نافلة ثم اقتدى مفترضا، وإن صلى ثلاثا أتمها ثم افتدى متنقلا إلا في العصر
: الفتاوى الهندية(1/ 119)دارالفكر
إن صلى ركعة من الفجر أو المغرب فأقيم يقطع ويقتدي وكذا يقطع الثانية ما لم يقيدها بالسجدة وإذا قيدها بها لم يقطعها وإذا أتمها لم يشرع مع الإمام لكراهة النفل بعد صلاة الفجر ولما فيه من الإتيان بالوتر في النفل بعد المغرب أو مخالفة إمامه.

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس