میری ہمشیرہ اور بہنوئی نے مل کر ایک پلاٹ خریدا جس میں ٪55 حصہ میری ہمشیرہ کا تھا اور ٪45 بہنوئی کا جس کے کاغذات بہنوئی کے نام تھے ۔دریں اثناء بہنوئی نے ایک وصیت نامہ لکھا جس میں انہوں نے یہ وصیت کی کہ میری غیر موجودگی یا حادثہ (انتقال )کی صورت میں یہ پلاٹ میری اہلیہ (یعنی سائل کی ہمشیرہ )کے نام ہے اوراگر میرے ذمہ اس پلاٹ کی مد میں کوئی قرض ہو تو وہ بھی اُسی کے ذمہ ہوگا ااور وہ بلا شرکت ِغیر اس پلاٹ کی مالک ہوگی (یہ تحریر 2012 میں اُنہوں نے لکھی ) جبکہ چند ماہ قبل(2016ء میں) ان کا انتقال ہو گیا ہے اور اس پلاٹ کی مد میں ان کے ذمہ کوئی واجب ُالاداء قرض باقی نہیں ہے۔ اب اس صورتِ حال میں معلوم یہ کرنا ہے کہ آیا مذکورہ پلاٹ کے بارے میں جو وصیت میرے بہنوئی نے کی ہے وہ معتبر ہے یا نہیں یعنی کیا یہ پلاٹ مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوگا یا مرحوم کی اہلیہ ہی بلا شرکت ِغیراس کی مالک ہے؟
شرعی وارث کے لئےوصیت کرنا شرعاً درست نہیں لہٰذاصورتِ مسئولہ میں آپ کے بہنوئی نے اپنی اہلیہ کے لئے مذکورہ پلاٹ میں سے اپنے حصہ کی جووصیت کی ہے وہ شرعاً معتبر نہیں ہے بلکہ مذکورہ پلاٹ میں سے مرحوم کے حصہ کی بقدر 45 فی صدپلاٹ مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوگااور بقیہ 55 فی صد بدستور ان کی اہلیہ کی ملک ہے،البتہ اگر دیگر ورثاء عاقل بالغ ہوں اور وہ اپنی رضامندی سے اس وصیت پرعمل کرتے ہوئے مذکورہ پوراپلاٹ مرحوم کی اہلیہ کو دیدیں توایساکرسکتے ہیں۔
بدائع الصنائع،العلامة علاءالدين الكاساني(م:587هـ) (7/337)دارالكتب العلمية
(ومنها) أن لا يكون وارث الموصي وقت موت الموصي، فإن كان لا تصح الوصية لما روي عن أبي قلابة – رضي الله عنه – عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أنه قال «إن الله تبارك وتعالى أعطى كل ذي حق حقه، فلا وصية لوارث»…ولو أوصى لبعض ورثته، فأجاز الباقون؛ جازت الوصية؛ لأن امتناع الجواز كان لحقهم لما يلحقهم من الأذى والوحشة بإيثار البعض، ولا يوجد ذلك عند الإجازة، وفي بعض الروايات عنه – عليه الصلاة والسلام – أنه قال «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» ، ولو أوصى بثلث ماله لبعض ورثته ولأجنبي، فإن أجاز بقية الورثة؛ جازت الوصية لهما جميعا۔
الدرالمختار،العلامةعلاءالدين الحصكفي(م:1088هـ) (2/347)دارالفكر
«لا وصية لوارث ولا إقرار له بدين» (إلا أن يصدقه) بقية الورثة…۔
تبيين الحقائق، العلامة فخر الدين الزيلعي(م:743هـ)(5/25 )المطبعة الكبرى الأميرية
ولنا قوله – عليه الصلاة والسلام – «لا وصية لوارث ولا إقرار له بالدين» وقول ابن عمر – رضي الله تعالى عنهما – إذا أقر الرجل في مرضه بدين غير وارث فإنه جائز، وإن أحاط ذلك بماله، وإن أقر لوارث فغير جائز إلا أن يصدقه الورثة؛ ولأن فيه إيثار بعض الورثة بماله بعدما تعلق حق جميعهم به فلا يجوز لما فيه من إبطال حق البقية كالوصية له وإنما تعلق حقهم به لاستغنائه عنه بعد الموت فلا يمكن من إبطال حقهم بالإقرار لورثته كما لا يمكن بالوصية لهم۔
فتح القدير،العلامة ابن الهمام (م:861هـ)(10/423)دار الفكر
(ولا تجوز لوارثه) لقوله – عليه الصلاة والسلام – «إن الله تعالى أعطى كل ذي حق حقه، ألا لا وصية لوارث» ولأنه يتأذى البعض بإيثار البعض ففي تجويزه قطيعة الرحم ولأنه حيف بالحديث الذي رويناه، ويعتبر كونه وارثا أو غير وارث وقت الموت لا وقت الوصية لأنه تمليك مضاف إلى ما بعد الموت، وحكمه يثبت بعد الموت۔