بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

اسقاط حمل

سوال

ایک عورت جسمانی قوت وصحت کے اعتبار سے بہت کمزور ہے ، گودمیں ابھی دودھ پیتا بچہ بھی ہے، ضعف بھی ہے اسی دوران اسے حمل ٹھہر جاتاہے دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیایہ عورت ایک ماہ سے چالیس یوم کے حمل کااسقاط کر واسکتی ہے ؟ اگرایک ماہ یاچالیس یوم کے حمل کااسقاط کرواسکتی ہے تو بعد الاسقاط رحم سے آنے والادم دمِ نفاس کے حکم میں ہوگایادم حیض کے حکم میں؟

جواب

فقہاء کرام رحمہم اللہ نے کسی عذرِ معتبر کےبغير اسقاطِ حمل کو ممنوع قرار دیا ہےكيونکہ یہ عمل شرعاً ممنوع ہونے کے ساتھ ساتھ طبّی اعتبار سے بھی نقصان دہ ہے؛ اس لئے حتی الامکان اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔ہاں اگر مذکورہ صورت میں كوئی ماہر امانت دار ڈاکٹرحمل کو باقی رکھنے کی صورت میں عورت یا بچے کی صحت کے شدید متاثر ہونے کا اندیشہ ظاہرکرے تواس عذر کی وجہ سے حمل ساقط کروانے کی گنجائش ہے ، اورچونكہ ابھی تک حمل کو ایک مہینہ یا چالیس دن کا عرصہ ہوا ہے اس لئے اس کے بعد آنے والا خون اگر تین دن یا اس سے زائد مدت تک آئے تو حیض کے حکم میں ہے اور اگرتین دن سے کم مدت تک آئے تو استحاضہ شمار ہوگا(یعنی ان دنوں کی نماز قضاکرنی ہوگی)۔
الدرالمختار،العلامةعلاءالدين الحصكفي(م :1088هـ) (3/176) سعید
وقالوا يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج۔
ردالمحتار،العلامة ابن عابدين الشامي(م:1252هـ) (3/176) سعید
(قوله وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة كذا في الفتح، …، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لا تأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح۔
الدرالمختار،العلامةعلاءالدين الحصكفي(م:1088هـ)(1/302) سعید
(و) انقضاء (العدة من الأخير وفاقا) لتعلقه بالفراغ (وسقط) مثلث السين: أي مسقوط (ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولا يستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوما (ولد) حكما (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء  فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثا وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس