بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

استصناع کا عقد کرلینے کے بعد مارکیٹ میں اشیاء کا ریٹ بڑھ جانا

سوال

ایک دینی مدرسہ نے ترپال کے پردے لگانے کے لیے ایک مستری سے معاملہ طے کیا جس میں فی پردہ 21600 کا طے پایا گیا جبکہ تین پردے 64800 کے طے پائے اور اس مستری نے بل بنا کے دیا اور اس پر تاریخ نہیں لکھی اور یہ بل انتظامیہ کے پاس گیا اور انہوں نے تقریبا چار ماہ بعد منظوری دے دی۔ اسی طرح کچھ دب گزرگئے۔
منظوری کے کچھ دن بعد مستری کو بلا کر 50،000 اس کو نقد دیے تاکہ وہ آسانی سے کام کرلے۔ بعد میں جب کام مکمل ہوگیا پردوں کا اور مستری نے دوبارہ بل بھیجا تو وہ مقرر شدہ پیسوں سے زائد کابل تھا، تو اس سے اضافی قیمت کا پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ ریٹس میں اضافہ ہوگیا اسی وجہ سے میں نے قیمت بڑھادی۔
اب اس بات کا جواب مطلوب ہے اس ( مستری) کی جانب سے اضافی پیسوں کا مطالبہ درست ہے یا نہیں اور مدرسہ کے فنڈ سے اضافی پیسے دینا جائز ہے یا نہیں؟
ملحوظہ: بائع نے کام شروع کرنے سے پہلے ادارے کے ذمہ دار کو یہ بتا دیا تھا کہ ریٹ بڑھ گیا ہے۔ جس پر ادارے کے ذمہ دار نے کہا کہ ٹھیک ہے اضافے کا حساب کرلیا جائے گا۔

جواب

صورت مسؤلہ میں پہلے دیے گئے ریٹ کے مطابق ثمن متعین تھا، البتہ منظوری میں تاخیر ہوئی اور اس دوران ریٹ میں اضافہ ہوگیا اور ادارہ کے ذمہ دار سے زبانی استفسار کے ذریعہ معلوم ہوا کہ کام شروع کرنے سے پہلے مستری نے ریٹ بڑھنے کی اطلاع دی تھی اور ذمہ دار نے اس پر رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو اضافہ ہوا اس کا حساب کرلیں گے ۔ لیکن اس اضافی ریٹ کی تعیین نہیں کی گئی۔ اب اس اضافی قیمت کا تعین مارکیٹ ریٹ کے مطابق بغیر کسی اختلاف کے ہوسکتا ہے تو معاملہ شرعاً درست ہوگیا، لہذا یہ اضافی رقم مستری کو دینا ادارے کے ذمہ لازم ہے۔
بدائع الصنائع ( ١٥٦/٥) دار الكتب العلمية 
( ومنها ) أن يكون المبيع معلوما وثمنه معلوما علما يمنع من المنازعة، فإن كان أحدهما مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة فسد البيع، وإن كان مجهولا جهالة تفضي إلى المنازعة لا يفسد ، لأن الجهالة إذا كانت مفضية إلى المنازعة كانت مانعة من التسليم والتسلم فلا يحصل مقصود البيع، وإذا لم تكن مقضية إلى المنازعة لا تمنع من ذلك، فيحصل المقصود۔
فقه البيوع (۴۱۷/۱) معارف القرآن
القسم الثاني للمبيعات : هو الذى لا تتفاوت آحاده، ولا تتفاوت إسعاره فيما بين الآحاد ، وإنها تنضبط بمعيار معلوم يعرفه المتعاملون ، ولا يحتمل أن يقع الخطأ أو النزاع في تطبيقه – فالبيع بسعر السوق في هذا القسم جائز لأن ذكر مثل هذا المعيار المنضبط يقوم مقام ذكر الثمن، فليس فيه جهالة تفضي الى النزاع، ويبدو أن هذا نشوی القول أعدل وأوفق بالقواعد۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس