بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

ارض اموات کا حکم

سوال

ہماری زمین کے فرنٹ پر حکومتی زمین ہے اس حکومتی زمین میں پہلے دریا کا پانی تھا پھر یہ پانی خشک ہو گیا اور اب کئی سال گزر چکے ہیں اس زمین میں پانی نہیں آتا ،اب لوگوں نے اس کو قابلِ زراعت بنا دیا اور اس زمین میں کاشتکاری کرتے ہیں ،جبکہ حکومت کی طرف سے کوئی ممانعت نہیں آئی ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے لیے اس زمین کو استعمال کرنا جائز ہے ؟ اور اب تک جو ہم نے اس سے نفع کمایا اس کا کیا حکم ہے ؟
واضح رہے کہ ہم اس زمین کو اس لیے نہیں چھوڑتے کہ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کوئی اور اس پر قبضہ کر کے ہماری زمین کا فرنٹ ختم کر سکتا ہے اور ہماری زمین کا راستہ ختم کر سکتا ہے ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ زمینیں شرعاً” ارض موات “مردہ زمینیں کہلاتی ہیں ،اگر ایسی زمینوں سے بستی والوں کے حقوق (مشترکہ چراگاہیں ،جنگل وغیرہ ) متعلق نہ ہوں تو ایسی صورت میں جو شخص بھی متعلقہ محکمہ سے ایسی زمینوں کو آباد (قابل کاشت ) کرے گا وہ اس کی ملکیت ہوجائیں گی ،لہذا مذکورہ صورت میں جو زمینیں آپ کی زمین سے ملحق تھیں اگر محکمہ کی اجازت سے آپ نے ان کو قابلِ کاشت بنایا تو ایسی زمینوں کا استعمال آپ کے لیے شرعاً جائز ہے ۔
صحيح البخاري(كتاب المزارعة ،باب من احيا ارضا مواتا)
 وقال عمر: «من أحيا أرضا ميتة فهي له» موطأ مالك  (كتاب الاقضية ،القضاء في عمارة الموات )۔
عن هشام بن عروة، عن أبيه؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من أحيا أرضا ميتة فهي له. وليس لعرق ظالم حق۔
البحر الرائق (8/ 241)دار الكتاب الاسلامي 
قال: – رحمه الله – (وما عدل عنه الفرات ولم يحتمل عوده إليه فهو موات) ؛ لأنه ليس في ملك أحد وجاز إحياؤه إذا لم يكن حريما لعامر۔
بدائع الصنائع (6/ 194)العلمية
فالملك في الموات يثبت بالإحياء بإذن الإمام عند أبي حنيفة، وعند أبي يوسف ومحمد – رحمهم الله تعالى – يثبت بنفس الإحياء وإذن الإمام ليس بشرط۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس