بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

اجتماعی قربانی میں سری کے استعمال کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
اجتماعی قربانی میں سِری کی صفائی ستھرائی میں اچھا خاصا وقت لگتا ہے جس کی وجہ سے باقی گوشت بنانے میں تاخیر ہوجاتی ہے، جبکہ حصہ داران جلدی کا مطالبہ کرتےہیں اور قصائی خوشی سے اس کو کرنابھی نہیں چاہتے اور نہ ہی حصہ داران سری لے جانے میں کوئی رغبت رکھتے ہیں۔ نیز قصائی ان کی تیاری کی اجرت بھی زیادہ لیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اجتماعی قربانی میں سری کی شرعی حیثیت کیاہے؟کیا اجتماعی قربانی کے ذمہ داران اس کواستعمال کرنے /صدقہ کرنے میں باختیارہیں یایہ حصہ داران کاحق ہے؟ اور ان تک پہنچانے کا انتظام کرنا چاہئے اگر چہ اس کی تیاری میں اخراجات بڑھ جائیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ سات حصے بنانے کے بعد ہر حصے میں ایک ایک پائے اور کلیجی وغیرہ رکھ کر قرعہ اندازی سے حصہ داران میں تقسیم کیاجا تاہے۔ کیا اس طرح کر نا درست ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں ۔ ج

جواب

نمبر۱۔ اجتماعی قربانی میں جس طرح عام گوشت کو شرکاءکے درمیان تقسیم کرنا ضروری ہے ، ان کی اجازت کے بغیر صدقہ کرنا یا اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں، اسی طرح سری ،پائے کا بھی یہی حکم ہے ۔ لہذا قربانی کے ذمہ داران سریوں کو بھی تیار کرواکر حصہ داران کو دینے کا اہتمام کریں اگرچہ اس عمل کےلیے اضافی قصائی رکھنے پڑیں اور خرچ زیادہ ہو۔ حصہ داران کی رضامندی کے بغیر اسے استعمال میں لانے سے اجتناب کریں ، اور ایسا نظم کریں کہ ان کی تیاری کی وجہ سے غیر معمولی تاخیرنہ ہو ۔ البتہ اگر واقعۃ ًحصہ داران کی رغبت نہ ہو تو ذمہ داران تمام حصہ داران سے زبانی یا تحریری طور پر اجازت لے کر اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کرسکتے ہیں۔
نمبر۲۔ قرعہ اندازی سے تقسیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ،بلکہ بہتر طریقہ ہے۔
سنن الدارقطني (3/ 424)بيروت
عن أنس بن مالك , أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:  «لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفسه»۔
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (6/ 100)دارالكتب العلمية
سبعة ضحوا بقرة، وأرادوا أن يقسموا اللحم بينهم؛ إن اقتسموها، وزناً يجوز؛لأن القيمة فيها معنى السبع على هذا الوجه يجوز، وإن اقتسموها جزافاً إن جعلوا مع اللحم شيئاً من السقط نحو الرأس، والأكارع يجوز، وإن لم يجعلوا لا يجوز؛ لأن البيع على هذا الوجه لا يجوز، فإن….. مع هذا، وحللوا الفضل بعضهم لبعض لم يجز۔
فتاوى قاضي خان(3/209)رشیدیۃ
ولو اقتسموا اللحم الجزور المشتركةفي الأضحية جزافا وفي نصيب كل واحد منہم شيئ مما لايوزن كالرِجل والرأس ونحو ذلك لا بأس بہ إذا حلل بعض بعضا وقال أبويوسف   رحمه الله  تعالى أكره ذلك  وقال أبو على الدقاق رحمه الله تعالى إذا أخذ كل واحد منهم كراعا وقطعة لحم وأخذ الرأس وقطعة لحم وأخذ بعضهم الكل  من اللحم  إن سبع اللحم أو أقل لم يجز وإن أصابه أكثر حتى تكون الزيادة بإزاء الرجل والرأس جاز إذا كانوا سبعة۔
مجمع الأنهر (2/ 517)دارإحياء التراث العربي
(ويقسم لحمها) أي إذا جاز على الشركة فيقسم اللحم (وزنا) بين الشركاء؛ لأنه موزون (لا جزافا) لأن في القسمة معنى التمليك فلا يجوز جزافا عند وجود الجنس والوزن ولا يجوز التحليل؛ لأنه في معنى الهبة وهبة المشاع فيما يقسم لا تجوز (إلا إذا خلط) وضم (به) أي باللحم (من أكارعه أو جلده) أي يكون في كل جانب شيء من اللحم ومن الأكارع أو يكون في كل جانب شيء من اللحم وبعض الجلد أو يكون في جانب لحم وأكارع وفي آخر لحموجلد فحينئذ يجوز صرفا للجنس إلى خلاف الجنس كما في الدرر۔
المبسوط للسرخسي (7/ 76)دارالمعرفة
أن تعليق ابتداء الاستحقاق بخروج القرعة يكون قمارا فكذلك تعيين المستحق، وإنما يجوز استعمال القرعة عندنا فيما يجوز الفعل فيه بغير القرعة كما في القسمة. فإن للقاضي أن يعين نصيب كل واحد منهم بغير قرعة فإنما يقرع تطييبا لقلوبهم، ونفيا لتهمة الميل عن نفسه وبهذا الطريق كان يقرع رسول الله – صلى الله عليه وسلم – بين نسائه إذا أراد سفرا؛ لأن له أن يسافر بمن شاء منهن بغير قرعة إذ لا حق للمرأة في القسم في حال سفر الزوج، وكذلك يونس صلوات الله عليه عرف أنه هو المقصود، وكان له أن يلقي نفسه في الماء من غير إقراع، ولكنه أقرع كي لا ينسب إلى ما لا يليق بالأنبياء، وكذلك زكريا – عليه السلام – كان أحق بضم مريم إلى نفسه؛ لأن خالتها كانت تحته ولكنه أقرع تطييبا لقلوب الأحبار۔
تبيين الحقائق (4/ 227)المطبعة الكبرى الأميرية
ونظيرها القرعة، فإنها ليست بموجبة شيئا لم يكن له لولا القرعة ومع هذا جاز استعمالها تطييبا للقلوب ونفيا للتهمة عن القاضي۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس